یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دکھاوا ہمیشہ سے انسان کی کمزوری رہا ہے، چاہے کوفہ کی گلیاں ہوں یا آج کا سوشل میڈیا۔
میں ایک دن کوفہ کی گلیوں میں جا رہا تھا۔
میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہا ہے۔
میں نے پوچھا: معاملہ کیا ہے؟
ایک نے کہا: میرا دوست میرے گھر آیا۔
اس نے بکرے کے سر کا شوق ظاہر کیا۔
میں نے بکرے کا سر خریدا اور ہم نے کھایا۔
میں نے اس کی ہڈیاں دروازے پر سجا دیں تاکہ خوبصورت لگیں۔
یہ پڑوسی آیا اور وہ ہڈیاں اٹھا لے گیا۔
اس نے اپنی دروازے پر رکھ دیں۔
تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس نے وہ بکرے کا سر خریدا تھا۔”
لگتا ہے کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلیں۔
پرانے لوگ بھی آج کے لوگوں جیسے تھے۔
انہیں بھی دکھاوا پسند تھا۔
وہ بھی چاہتے تھے کہ لوگ سمجھیں کہ وہ خوشحال ہیں.
آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
بس انداز بدل گیا ہے۔
اب لوگ سوشل میڈیا پر تصویریں لگاتے ہیں۔
تاکہ لوگ سمجھیں کہ وہ بڑی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔
میری رائے میں، وہ بکرے کے سر کی ہڈیاںجو پڑوسی نے اپنے دروازے پر فخر کے لیے رکھی تھیں،
آج کی سوشل میڈیا پر کھانے کی تصویروں سے کچھ مختلف نہیں!
بس دکھاوا کرنے کا انداز بدل گیا ہے۔
کتابوں کے ساتھ کافی کی تصویر علمی دکھاوا ہے۔
سالگرہ کے کیک کی تصویر جذباتی دکھاوا ہے۔
جیسے کہنا ہو: “دیکھو! ہم خاص ہیں۔ ہمیں محبت ملتی ہے۔”
پہلا پڑوسی اپنی چیزوں پر فخر کر رہا تھا۔
لیکن دوسرا پڑوسی اس سے بھی آگے نکل گیا۔
وہ دکھاوا بھی کرنا چاہتا تھا اور جھوٹ بھی بول رہا تھا۔
آج بھی ایسے لوگ ہیں۔
کچھ لوگ دوسروں کی تصاویر چوری کرتے ہیں۔
پھر انہیں اپنی بنا کر پیش کرتے ہیں۔
تاکہ لوگ سمجھیں کہ وہ پڑھے لکھے ہیں۔
یا یہ کہ کوئی انہیں تحفے دیتا ہے۔
اصل میں یہ سب پڑوسی کے سر کی ہڈیاں چرانے جیسا ہی ہے —
بس دکھاوا کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے!
697 عیسوی میں عمرو بن میمون کا انتقال ہوا۔
انہوں نے نبی ﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کیا۔
لیکن وہ آپ ﷺ کو کبھی دیکھ نہیں سکے۔
اسی لیے وہ تابعین میں سے ہیں، صحابہ میں سے نہیں۔
انہوں نے بڑے بڑے صحابہ سے ملاقات کی۔
ان سے روایتیں بیان کیں۔
صحاح ستہ کے مصنفین نے بھی ان سے احادیث روایت کیں۔
امام ذہبی کے مطابق اہلِ حدیث کا اجماع تھا کہ عمرو بن میمون سچے اور امانت دار تھے۔
بہت اچھی تحریر ہے ۔۔