انسانی نفسیات پر دعا کے اثرات

انسانی نفسیات پر دعا کے اثرات

یہی عمل "دعا” کہلاتا ہے۔

"دل کو قرار آتا ہے”

قرآن کہتا ہے:

"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”

(سورہ الرعد 13:28)

ترجمہ: "بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔”

جب انسان سچے دل سے دعا کرتا ہے، تو اس کا دماغ سیروٹونن اور ڈوپامین جیسے خوشی کے ہارمون خارج کرتا ہے۔

یہ ہارمونز ذہنی دباؤ، اضطراب، خوف اور تنہائی کو کم کرتے ہیں۔

انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں، کوئی ہے جو سن رہا ہے، جانتا ہے، اور کچھ کر سکتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات اس عمل کو "therapeutic communication” کہتے ہیں، یعنی ایسا رابطہ جو دل کو سکون دے۔

"دل کی بات زبان پر اور زبان سے رب تک”

دعا انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیتی ہے: دکھ، غم، حسرت، خواہش سبھی کا اظہار۔

اس سے دل ہلکا ہوتا ہے، اور جذبات میں توازن آتا ہے۔

جو لوگ باقاعدگی سے  دعا کرتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت کم چڑچڑے، کم غصہ ور اور زیادہ تحمل  والے ہوتے ہیں۔

"روح کی غذا جسم پر بھی اثر ڈالتی ہے”

دعا کے دوران انسان کی سانس کی رفتار کم ہو جاتی ہے، دل کی دھڑکن نارمل ہو جاتی ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ دعا کرنے والے افراد کا بلڈ پریشر اور تناؤ کے ہارمون (Cortisol) کم ہوتے ہیں۔

یہ عمل نیند کو بہتر بناتا ہے، قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے، اور مجموعی صحت میں بہتری لاتا ہے۔

Harvard Medical School کے مطابق:

“Prayer and meditation help improve the immune system, lower blood pressure, and reduce stress.”

(دعا اور مراقبہ انسان کے جسمانی دفاعی نظام کو بہتر کرنے میں مدد کرتی ہے،ہائی بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے  اور ذہنی دباؤ کو بھی کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔)

"دعا سوچنے کا انداز بدل دیتی ہے”

دعا کرنے والا انسان خود کو مجبور و کمزور نہیں، بلکہ متحرک و پر امید محسوس کرتا ہے۔

دعا میں جو جملے انسان دہراتا ہے:

"یا اللہ مجھے ہمت دے”

"میری راہیں آسان کر”

"تو ہی میرا سہارا ہے”

یہ جملے اُس کی سوچ کو مثبت بناتے ہیں۔

وہ مشکلات کو چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے، شکایت کے طور پر نہیں۔

"رب سے تعلق… بندے کو بندگی سکھاتا ہے”

دعا صرف سوال نہیں ہوتی، یہ تعلق ہوتا ہے۔

وہ لمحہ جب انسان دنیا و اسباب سے کٹ کر، دل کی گہرائی سے کہتا ہے:

"یا اللہ… بس تو ہی کافی ہے”

تو وہ لمحہ اس کی روح کی تربیت کرتا ہے۔

"مجھے دعا کا قبول ہونا اتنا عزیز نہیں، جتنا دعا کی توفیق ملنا عزیز ہے۔”

Neuroscientist Dr. Andrew Newberg کہتے ہیں:

"Prayer permanently changes brain patterns in ways that increase empathy, compassion, and calm.”

(” دعا انسانی دماغ کی فعالیت میں ایسی دیرپا تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جو ہمدردی، شفقت اور سکونِ قلب کو فروغ دیتی ہیں۔”)

John Hopkins University کی تحقیق کے مطابق:

"Regular prayer and meditation can rewire the brain for resilience.”

("باقاعدگی کے ساتھ کی جانے والی دعا اور مراقبہ دماغ کے نیورل سرکٹس کو اس طرح فعال کردیتی ہے کہ انسان چیلنجز کا سامنا زیادہ برداشت اور اندرونی مضبوطی کے ساتھ کر سکے۔”)

دعا صرف ایک مذہبی رسم نہیں، یہ انسان کے دل، دماغ، جسم، رویے اور روح پر گہرا اثر ڈالنے والا عمل ہے۔

یہ مایوسی کو امید میں بدل دیتی ہے۔

یہ تنہائی کو قرب میں بدل دیتی ہے۔

یہ غصے کو صبر میں بدل دیتی ہے۔

اور یہ کمزوری کو طاقت میں بدل دیتی ہے۔

اگر آپ خود کو ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا، کمزور، اکیلا یا بے سمت محسوس کریں…

تو اپنے رب سے سچے دل سے، خاموشی میں، آہستگی سے، دعا مانگیں۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

    جواب دیں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے