انسان فطرتاً ایک کمزور مخلوق ہے، جو دکھ، پریشانی، بےیقینی، خوف اور خواہشات میں گِھرا ہوا ہے۔ جب وہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ کسی بڑی اور طاقتور ہستی کی طرف رُخ کرتا ہے، تو یہ عمل صرف مذہبی عبادت نہیں، بلکہ ایک گہرا نفسیاتی و روحانی تجربہ ہوتا ہے، جس کا اثر انسان کی سوچ، جذبات، جسم، فیصلے اور رویوں تک پھیل جاتا ہے۔
یہی عمل "دعا” کہلاتا ہے۔
1. دعا اور ذہنی سکون
"دل کو قرار آتا ہے”
قرآن کہتا ہے:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”
(سورہ الرعد 13:28)
ترجمہ: "بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔”
جب انسان سچے دل سے دعا کرتا ہے، تو اس کا دماغ سیروٹونن اور ڈوپامین جیسے خوشی کے ہارمون خارج کرتا ہے۔
یہ ہارمونز ذہنی دباؤ، اضطراب، خوف اور تنہائی کو کم کرتے ہیں۔
انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں، کوئی ہے جو سن رہا ہے، جانتا ہے، اور کچھ کر سکتا ہے۔
ماہرینِ نفسیات اس عمل کو "therapeutic communication” کہتے ہیں، یعنی ایسا رابطہ جو دل کو سکون دے۔
2. دعا اور جذباتی ہم آہنگی
"دل کی بات زبان پر اور زبان سے رب تک”
دعا انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیتی ہے: دکھ، غم، حسرت، خواہش سبھی کا اظہار۔
اس سے دل ہلکا ہوتا ہے، اور جذبات میں توازن آتا ہے۔
جو لوگ باقاعدگی سے دعا کرتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت کم چڑچڑے، کم غصہ ور اور زیادہ تحمل والے ہوتے ہیں۔
� 3. جسمانی اثرات
"روح کی غذا جسم پر بھی اثر ڈالتی ہے”
دعا کے دوران انسان کی سانس کی رفتار کم ہو جاتی ہے، دل کی دھڑکن نارمل ہو جاتی ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دعا کرنے والے افراد کا بلڈ پریشر اور تناؤ کے ہارمون (Cortisol) کم ہوتے ہیں۔
یہ عمل نیند کو بہتر بناتا ہے، قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے، اور مجموعی صحت میں بہتری لاتا ہے۔
Harvard Medical School کے مطابق:
“Prayer and meditation help improve the immune system, lower blood pressure, and reduce stress.”
(دعا اور مراقبہ انسان کے جسمانی دفاعی نظام کو بہتر کرنے میں مدد کرتی ہے،ہائی بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے اور ذہنی دباؤ کو بھی کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔)
4. سوچ اور رویے پر اثر
"دعا سوچنے کا انداز بدل دیتی ہے”
دعا کرنے والا انسان خود کو مجبور و کمزور نہیں، بلکہ متحرک و پر امید محسوس کرتا ہے۔
دعا میں جو جملے انسان دہراتا ہے:
"یا اللہ مجھے ہمت دے”
"میری راہیں آسان کر”
"تو ہی میرا سہارا ہے”
یہ جملے اُس کی سوچ کو مثبت بناتے ہیں۔
وہ مشکلات کو چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے، شکایت کے طور پر نہیں۔
5. روحانی ترقی
"رب سے تعلق… بندے کو بندگی سکھاتا ہے”
دعا صرف سوال نہیں ہوتی، یہ تعلق ہوتا ہے۔
وہ لمحہ جب انسان دنیا و اسباب سے کٹ کر، دل کی گہرائی سے کہتا ہے:
"یا اللہ… بس تو ہی کافی ہے”
تو وہ لمحہ اس کی روح کی تربیت کرتا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے:
"مجھے دعا کا قبول ہونا اتنا عزیز نہیں، جتنا دعا کی توفیق ملنا عزیز ہے۔”
جدید سائنس کی شہادت:
Neuroscientist Dr. Andrew Newberg کہتے ہیں:
"Prayer permanently changes brain patterns in ways that increase empathy, compassion, and calm.”
(” دعا انسانی دماغ کی فعالیت میں ایسی دیرپا تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جو ہمدردی، شفقت اور سکونِ قلب کو فروغ دیتی ہیں۔”)
John Hopkins University کی تحقیق کے مطابق:
"Regular prayer and meditation can rewire the brain for resilience.”
("باقاعدگی کے ساتھ کی جانے والی دعا اور مراقبہ دماغ کے نیورل سرکٹس کو اس طرح فعال کردیتی ہے کہ انسان چیلنجز کا سامنا زیادہ برداشت اور اندرونی مضبوطی کے ساتھ کر سکے۔”)
نتیجہ:
دعا صرف ایک مذہبی رسم نہیں، یہ انسان کے دل، دماغ، جسم، رویے اور روح پر گہرا اثر ڈالنے والا عمل ہے۔
یہ مایوسی کو امید میں بدل دیتی ہے۔
یہ تنہائی کو قرب میں بدل دیتی ہے۔
یہ غصے کو صبر میں بدل دیتی ہے۔
اور یہ کمزوری کو طاقت میں بدل دیتی ہے۔
آخری پیغام:
اگر آپ خود کو ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا، کمزور، اکیلا یا بے سمت محسوس کریں…
تو اپنے رب سے سچے دل سے، خاموشی میں، آہستگی سے، دعا مانگیں۔
یاد رکھیں:
"جو اپنے رب سے باتیں کرتا ہے، وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا ۔۔