مثبت اور منفی سوچ کے درمیان حدود کو سمجھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ دونوں سوچیں کسی نہ کسی موقع پر ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہیں — لیکن حد سے تجاوز ہمیں یا تو فریب میں رکھتا ہے یا مایوسی میں دھکیل دیتا ہے۔
مثبت سوچ کی حدود کیا ہیں؟
مثبت سوچ کا فائدہ
حوصلہ دیتی ہے
مایوسی سے بچاتی ہے
مواقع دیکھنے کی نگاہ عطا کرتی ہے
اعتماد اور پیش رفت کا جذبہ پیدا کرتی ہے
Albert Ellis (CBT) کے بانیوں میں سے ہیں ون کے مطابق:
"Too much positive thinking can lead to denial of reality.” "حد سے زیادہ مثبت سوچ حقیقت سے انکار کی طرف لے جا سکتی ہے۔” ایلس کے مطابق ضرورت سے زیادہ رجائیت بعض اوقات انسان کو خطرات، کمزوریوں اور اصل مسائل کا سامنا کرنے سے روکتی ہے۔
مگر حد سے زیادہ مثبت سوچ خطرناک ہو سکتی ہے جب:
1. حقائق سے آنکھیں بند کر لی جائیں
اگر کسی بیماری کی علامات ہوں اور ہم یہ کہہ کر نظر انداز کریں کہ "سب ٹھیک ہے، کچھ نہیں ہوگا”، تو یہ غفلت ہے، نہ کہ مثبت سوچ۔
2. خطرات کا اندازہ نہ لگایا جائے۔
کاروبار میں بغیر تحقیق و تیاری "مثبت سوچ” پر انحصار نقصان دے سکتا ہے۔
3. خودفریبی (Self-Deception) پیدا ہو جائے
ہر بات کو اچھا سمجھنا، تنقید کو قبول نہ کرنا، اصلاح سے بچنا۔
قرآن میں بھی ہمیں صرف امید پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ عقل سے کام لینے اور تدبر کی دعوت دی گئی ہے:
ٱلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُۥ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَىٰهُمُ ٱللَّهُ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمْ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـٰبِ
"جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر جو بہترین بات ہو، اس کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی عقل والے ہیں۔"
منفی سوچ کی حدود کیا ہیں؟
منفی سوچ کا فائدہ
ممکنہ خطرات کا ادراک دیتی ہے
احتیاط اور تدبیر کی راہ دکھاتی ہے
حد سے بڑھی ہوئی خوش فہمی سے روکتی ہے
(Aaron T. Beck (CBT کے بانی کے مطابق:
"Negative thinking is not always irrational; sometimes it’s realistic.”
منفی سوچ ہمیشہ غیر منطقی نہیں ہوتی؛ بعض اوقات وہ حقیقت پسند ہوتی ہے۔ آرن بیَک کے مطابق کچھ "منفی” سوچیں دراصل حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں اور ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
مگر منفی سوچ بھی جائز نہیں جب:
1. مایوسی اور ناامیدی پیدا کرے
قرآن کہتا ہے: "إِنَّهُ لَا يَيْئَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ” (یوسف: 87)
ترجمہ: "اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی ناامید ہوتے ہیں۔”
2. ہمیں عمل سے روک دے۔
اگر ہم ہر کام سے پہلے "اگر ناکامی ہو گئی” سوچیں، تو کبھی کوشش نہیں کریں گے۔
3. دوسروں سے بدگمانی اور خود سے نفرت کی صورت بن جائے۔
ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، خود کو ناکام یا ناقابلِ محبت سمجھنا، یہ روحانی بیماری کی علامات ہیں۔
توازن کیسے رکھا جائے؟
منصوبہ بندی حقیقت پسندانہ انداز میں مثبت رہنا، خطرات کا ادراک بھی رکھنا
بیماری/مشکل تدبیر کے ساتھ دعا اور حوصلہ، نہ مایوسی نہ غفلت
تعلقات حسن ظن رکھنا مگر اندھی عقیدت نہیں
تنقید اصلاح کی نیت سے قبول کرنا، نہ کہ اسے دشمنی سمجھنا
Viktor Frankl (Logotherapy) کے بانی کہتے ہیں کہ:
"When we are no longer able to change a situation, we are challenged to change ourselves.” جب ہم کسی صورت حال کو بدلنے کے قابل نہ رہیں، تو ہمیں خود کو بدلنے کا چیلنج قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس قول میں یہ پہلو شامل ہے کہ مثبت سوچ صرف حالات بدلنے کا نام نہیں، بلکہ خود کو بدلنے کی ہمت بھی ہے — لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان حقیقت کو تسلیم کرے.
خلاصہ:
مثبت سوچ امید، عمل، اور حوصلے کا نام ہے، مگر اندھی خوش فہمی نہیں۔
منفی سوچ احتیاط، ادراک، اور تدبر کا ذریعہ ہو سکتی ہے، مگر مایوسی، بدگمانی اور خودفریبی نہیں۔
اسلام میں سوچ کا معیار "توازن” ہے – نہ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی، نہ بے جا نا امیدی ۔
Daniel Kahneman (Nobel Prize Winner in Psychology)said:
"We are prone to overestimate how much we understand about the world.”
"ہم دنیا کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کو حد سے زیادہ سمجھنے کے عادی ہیں۔”
کہنیمن کے مطابق ہماری سوچ اکثر محدود ہوتی ہے، چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، اس لیے خود پر شک کرنا اور مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔